واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی

رحمتہ اللہ علیہ

             آپ کی ولادت باسعادت حضرت بایزید بسطامی   رحمتہ  اللہ  علیہ   کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد ۳۵۲ ہجری فرقان میں ہوئی۔ آپ کا اسم گرامی علی بن احمد اور کنیت ابوالحسن ہے۔ آپ کو اویسی طریقہ پر حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے باطنی فیض پہنچا اور انہی سے آپ کی روحانی تر بیت ہوئی۔انہی کے فیض کو آپ نے تمام جہاں میں عام کیا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

           اوائل زندگی میں آپ کا یہ معمول تھا کہ نماز عشا با جماعت ادا کرنے کے بعد حضرت با یز ید بسطامی   رحمتہ  اللہ  علیہ   کےمزار پرانوار فیض حاصل کرنے کے لیے خرقان جو قزدین کے قریب قصبہ کا نام ہے، سے پیدل بسطام جاتے تھے وہاں پہنچ کر یوں دعا کرتے !"خدایا جو مرتبہ تو نے حضرت بایزید بسطامی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو وہ ابوالحسن کو بھی عطا فرما"۔اس  دعا کے بعد خرقان واپس آکر نماز فجر ادا کرتے۔آپ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ بسطام سے اس نیت کے ساتھ الٹے پاوں واپس ہوتے کہ کہیں حضرت با یز ید بسطامی کے مزار کی بے ادبی نہ ہو جائے۔

         بارہ برس  کی مسلسل حاضری کے بعد مزار مباک سے آواز آئی ۔ اے ابوالحسن ! اب تمہارےپڑھنے   کا وقت آگیا ہے ۔ یہ سن کر عرض کی کہ میں ان پڑھ ہوں۔رموز شریعت سے چنداں واقف نہیں ۔آواز آئی کہ تم نے جو خدا سے مانگا تھا وہ تمہیں مل گیا۔ فاتحہ شروع کیجے۔جب آپ خرقان واپس پہنچے تو پورا قرآن مجید ختم کر لیا اورتمام ظاہری اور باطنی علوم آپ پر منکشف ہو گئے۔

        مشہور مسلم حکمران سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے بڑے عقیدت مند تھے۔جب پہلی بار سلطان محمود غزنوی نے آپ کا شہرہ سنا اور خرقان پہنچ کر اپنے قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ حضور میرے دربار میں ملاقات کے تشریف لائیں  تو بڑی مہربانی ہو گی ۔لیکن آپ نے انکار کر دیا ۔ جس کے بعد سلطان محمودغزنوی نے اپنا شاہی لباس  اپنے غلام ایاز کو پہنایا خودایاز کے کپڑے پہن لئے۔دس لونڈیوں کو غلاموں کا لباس پہنا کر آپ کے امتحان کی غرض سے خانقاہ کا رخ کیا۔سب نے حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا لیکن آپ تعظیم کے لیے نہ اٹھے۔ آپ نے سلطان کی طرف توجہ کی اور ایاز کی طرف مطلق نگاہ نہ کی ۔آپ نے ارشاد فرمایا یہ سب کچھ جال ہے۔سلطان نے کہا ہاں یہ جال ہے مگر اسکا پرندہ آپ نہیں ہیں ۔پھر آپ ؓنے سلطان محمود کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ۔آگے آؤ۔ تم مقدم ہو۔پس سلطان محمود بیٹھ گیا اور عرض کی کہ مجھے کچھ ارشاد فرمائیے۔آپ نے فرمایا پہلے نامحرموں کو نکال دو۔ سلطان نے اشارہ کیا اور وہ لونڈیاں باہر نکل گیئں۔سلطان محمود نے آپ سے فرمائش کی کہ مجھے حضرت با یزید بسطامی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی کوئی بات سنایئے۔ آپ نے فرمایا حضرت بایزید  رحمتہ  اللہ  علیہ   کا قول تھا  "جس نے میری زیارت کر لی اس کو بدبختی سے نجات مل گئی"۔اس پر محمود نے پوچھا کیا ان کا مرتبہ حضرت محمد ﷺ سے بھی زیادہ ہے۔اس لئےکہ حضورﷺ کوابوجہل اورابولہب جیسےمنکرین نےبھی دیکھاپھربھی ان کی بدبختی دورنہ ہوسکی۔ آپ نےفرمایاکہ اےمحمود!ادب کوملحوظ خاطررکھ اوراپنی بساط سےباہرپاؤں نہ رکھ کیونکہ حضرت محمدﷺکوخلفائےراشدین اوردیگرصحابہؓ کےعلاوہ کسی نےنہیں دیکھاجس کی دلیل قرآن پاک کی یہ آیت مبارک ہے۔اس کے بعدآپ نےسورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۱۹۸کاکچھ حصہ تلاوت فرمایا جس کاترجمہ درج ذیل ہے:

" اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔"

یہ سن کرسلطان بہت محفوظ ہوا۔پھرآپ سےکہنےلگاکہ مجھےکچھ نصیحت فرمائیے۔آپ نےفرمایاچارچیزیں اختیارکرو ۱۔پرہیزگاری۔

۲۔باجماعت نمازاداکرتےرہو۔

۳۔سخاوت کواپناشعاربنالو۔

۴۔خلقِ خداپرشفقت کواپناشعاربنالو۔

پھرسلطان محمودنےعرض کی کہ حضور میرےلئےدعافرمائیں۔ حضرت ابوالخرقانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےفرمایامیں پانچوں نمازوں میں دعاکرتاہوں کہ"یااللہ مومنین و مومنات کے گناہ بخش دے" سلطان نے کہامیرےواسطےخاص دعاکیجیے۔ آپ   رحمتہ  اللہ  علیہ   نےفرمایااےمحمودےتیری عاقبت محمودہو۔

         سلطان محمود غزنوی نےاس کےبعدآپ کی خدمت میں اشرفیوں کاایک توڑا پیش کیا۔ آپ  آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے جوکی روٹی اس کےآگےرکھ دی اورکہاکھاؤ۔سلطان چباتاتھالیکن حلق سےنہ اترتی تھی۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ  نے  فرمایا  کیا  تمہاراگلاپکڑتی ہے۔ سلطان نےکہاہاں!۔آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےفرمایااسی طرح تمہارااشرفیوں کاتوڑابھی میر  ا  گلاپکڑتاہےاسےواپس لےجاؤکیونکہ میں دنیاوی مال کوطلاق دےچکاہوں۔سلطان کےبے  حد  اصرار  کے  باوجودآپ  آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ    نے  ا س میں سےکچھ نہ لیا۔پھرسلطان محمودنےخواہش کی کہ مجھ کوبطورتبرک کچھ چیزعطافرمائیں۔ اس پرآپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےسلطان کواپناپیراہن دیدیا۔

        جب عقیدت و محبت سے سرشار ہوکر اور تبرک کے طور پر پیراہن مبارک لیکر ادب سے جانے کے لیے اٹھا تو حضرت اسکی تعظیم کے لیے اٹھے اور سلطان کے دریافت کرنے پر حضرت ابوالحسن خرقانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےفرمایاجب تم آئےتھےتواس وقت تمہارےاندرشاہی تکبرموجودتھااورمیراامتحان لینےآئےتھےلیکن اب تم انکساراوردرویشی کی حالت میں واپس جارہےہواورخورشیدفقرتمہاری پیشانی پررخشندہ ہے۔اس کےبعدسلطان رخصت ہوگیا۔

          کہتے ہیں کہ جب سومنات پر چڑھائی کے وقت سلطان غنیم کی بے پناہ قوت کی وجہ سے شکست کھانے لگا تو اضطراب کی حالت میں حضور ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کا پیراہن مبارک ہاتھ میں لیکر بارگاہ الٰہی میں یوں ملتجی ہوا:

الٰہی بآبروئے ایں خرقہ بریں کفار ظفردہ

ہرچہ ازینجا غنیمت بگیرم بدرویشاں بدہم

ترجمہ: خدایا اس خرقہ کی آبرو کے صدقے میں مجھے ان کافروں پر فتح عطا کر، مجھے یہاں سے جو مال غنیمت ملے گا درویشوں کو دیدوں گا۔

      جب محمودغنیم کےمقابلےمیں صف آراہواتوغنیم کےآپس میں باہمی اختلافات شروع ہوگئےاورانہوں نےایک دوسرےکوتہہ تیغ کرناشروع کردیا۔ اس طرح لشکراسلام کوفتح حاصل ہوئی۔

              رات کو محمودغزنوی نے خواب میں حضرت ابوالحسن خرقانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کودیکھا۔آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرما رہے ہیں"اےمحمودتو نےہمارےخرقاکی آبرو ضائع کردی اگر تو اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعاکرتاکہ سارےکفارمسلمان ہوجائیں تو بفضل خداسب مسلمان ہو جاتے۔

               ابوالقاسم قشیری  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرماتے ہیں کہ جب میں ولایت خرقان میں داخل ہوا  تو اس وقت مجھ پر حضرت ابوالحسن   رحمتہ  اللہ  علیہ   کا خوف اس قدر طاری تھا  کہ بات کرنے کی بھی سکت نہیں تھی جس وجہ سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ شائد مجھے ولایت سے محروم کر دیا گیا ہے۔

         ایک دفعہ آپ کے ایک مرید نے  کوہ لبنان جا کر قطب عالم سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو  آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے نہ صرف اسے جانے کی اجازت دے دی بلکہ راستے کے اخراجات کے لئے اجرت بھی دے دی۔جب آپ کا مرید کوہ لبنان پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ ایک جنازہ رکھا ہوا ہے ۔تمام لوگ کسی کے منتظر ہیں ۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہیں کس کا انتظار ہے تو انہوں نے کہا کہ پانچوں وقت نماز پڑھانے کے لیے قطب العالم تشریف لاتے ہیں۔ہمیں انہی کا انتظار ہے۔یہ سن کر اُسے بے حد خوشی ہوئی کہ بہت جلد قطب العالم سے ملاقات ہو جائے گی۔

           کچھ ہی دیر بعد لوگوں نے صفیں قائم لیں اور نماز جنازہ شروع ہو گئی۔جب اس نے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ نماز جنازہ کے امام خود اس کے مرشد حضرت ابو الحسن  رحمتہ  اللہ  علیہ   ہیں۔یہ دیکھ کر وہ خوف کے مارے بیہوش ہو گیا ۔جب ہوش آنے کے بعد دیکھا تو لوگ جنازے کو دفن کر چکے تھے اور قطب العالم جا چکے تھے۔اس نے لوگوں سے پوچھا کہ قطب العالم اب کب تشریف لائیں گے۔لوگوں نے بتایا کہ قطب العالم حضرت ابوالحسن   رحمتہ  اللہ  علیہ   اب نماز کے وقت پھر یہاں تشریف لائیں گے ۔چنانچہ وہ مرید انتظار میں وہیں رک گیا۔جب آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   دوبارہ تشریف لائے  اور نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو  مرید نے بڑھ کر سلام کر کے دامن تھام لیالیکن شدت خوف کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ نکلا۔آپ نے اسے واپس اپنے ہمراہ لے جاتے ہوئے فرمایا کہ جو تو  نے یہاں دیکھا ہے اس کوہماری زندگی میں کسی کے سامنے نہ ظاہر کرنا۔

             آپ سماع بالکل نہیں سنتے تھے لیکن جب حضرت ابو سعید  رحمتہ  اللہ  علیہ   آپ کی زیارت کے لئے آئے تو کھانے سے فارغ ہو نے کےبعد آپ سے اجازت طلب کی کہ قوال کچھ گائیں ۔آپ نے فرمایا کہ ہمیں سماع کی بالکل رغبت نہیں لیکن آپ کی دل جوئی کے لیے سن لیتے ہیں۔قوالوں نے ایک شعر پڑھا  تو شیح ابوسعید   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے کہا کہ اے شیح اب وقت ہے کہ آپ اٹھیں ۔ آپ اٹھے اور اپنی آستین کو تین بارحرکت دی اور سات مرتبہ قدم مبارک زمین پر مارا۔خانقاہ  کی تمام دیواریں آپ کی موافقت میں  ہلنے لگیں ۔شیح ابو سعید   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے کہا  ! اے شیح اب بس کیجیے ورنہ خانقاہ کی تمام دیواریں خراب ہو جائیں گیاور قسم ہے خداوند ذوالجلال کی  کہ زمین وآسمان بھی آپ کی موافقت میں رقص کرنے لگیں۔اس  وقت آپ نے فرمایا کہ سماع صرف اسی کے لیے جائز ہے جس کو آسمان سےلے کر عرش تک اور زمین سے تخت اثریٰ تک کشادگی نظر آتی ہو۔پھر لوگوں سے ارشاد کیا کہ اگرتم سےکوئی دریافت کرے کہ رقص کیوں کرتے ہو تو جواب میں کہہ دینا کہ گذشتہ بزرگوں کی اتباع میں جو ہو کر گذرے ہیں۔

          حضرت شیخ ابوالحسن رحمتہ اللہ علیہ کے توجہ الیٰ اللہ اور وصول کا یہ عالم تھا کہ فرماتے تھے تیس سال ہوئے ہیں سوائے حق تعالیٰ کے اور کوئی خیال میرے دل میں نہیں گذرا۔چالیس سال تک آپ نے سر کے نیچے تکیہ نہیں رکھا۔اور صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی۔

 

            جب آپ کا اس دار فانی سے رخصت ہونے کا وقت قریب آیا  تو وصیت فرمائی کہ مجھے زمین سے تیس گز نیچے دفن کرناکیونکہ یہ سر زمین بُسطام کی سر زمین سے زیادہ بلند ہے اور یہ بے ادبی کی بات ہے کہ میرا مزار حضرت بایزید بسطامی  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے اونچا ہو جائے۔چنانچہ آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا۔ آپ کا وصال خرقان ہی میں دس محرم الحرام ۴۲۵ ہجری میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔